احتجاج کا حق مشروط، لانگ مارچ کیخلاف عبوری حکم جاری کرنیکی حکومتی استدعا مسترد

اسلام آباد: (آئی این این ) وزارت داخلہ کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کے خلاف لانگ مارچ سے متعلق دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے عبوری حکم جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ہماری مداخلت درکار ہوئی تو چھٹی کے دن بھی پہنچیں گے، عدالت کے سامنے ٹھوس مواد لے کر آئیں، ہمارا کام توازن رکھنا ہے، احتجاج کا حق بھی مشروط ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین کیخلاف آزادی مارچ کے حوالے سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے پر حکومتی توہین عدالت کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے سماعت کی، بنچ دیگر ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سیّد مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ درخواست پہلے والی درخواست کا تسلسل ہے، ‏گزشتہ دھرنے کے دوران شہریوں کے حقوق متاثر ہوئے، بیان حلفی دیا گیا تھا شہریوں کو پریشانی نہیں ہوگی۔ عدالتی حکم مخصوص جگہ تک تھا لیکن دھرنا ڈی چوک تک لایا گیا، جب مخصوص جگہ پر نہ گئے اور ڈی چوک کی جانب آئے تو مالی نقصان ہوا۔ عدالت ان کو سزا دے جنہوں نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت داخلہ کی توہینِ عدالت کی درخواست ہے، سپریم کورٹ میں لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی، درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی لیکن یقین دہانی کے باوجود عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک کی کال دی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عبوری آرڈرز کس لیے دیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عمران خان تعلیمی اداروں میں طلبہ اور عوام کو اکسا رہے ہیں۔ ‏جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک عدالت ہیں، ‏آپ کے مطابق عدالتی احکامات کی پہلے ہی خلاف ورزی کی جاچکی ہے، آپ ایگزیکٹو اتھارٹی ہیں، اُس وقت عدالتی احکامات پر انحصار کر رہے تھے، ‏موجودہ صورتحال میں آپ کو اختیار ہے آپ روکنے کے لیے اقدامات کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ‏25 مئی کے واقعے میں 13 افراد زخمی ہوئے، عوامی املاک کو نقصان ہوا، کیس داخل نہ ہوا، ‏دوسرے دن عمران خان صبح سویرے واپس چلے گئے۔ اٹارنی جنرل صاحب ہم اس معاملے میں رپورٹس کا جائزہ لیں گے، آپ اپنے آپ کو قانون کے مطابق تیار کریں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد میں آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا کی پولیس بھی داخل ہوئی تھی۔ ‏اس دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کو پولیس اور انتظامیہ کی جمع کردہ رپورٹس فراہم کیں، جسٹس اعجازالاحسن نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ یہ خفیہ رپورٹس ہیں، ان کا جائزہ لیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی حکمنامے میں کارکنان کی پکڑ دھکڑ سے روک دیا گیا، عدالت نے پی ٹی آئی کی قیادت کو کارکنان کو پُرسکون رہنے کی بھی ہدایت کی، سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ فی الحال تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں آئی ایس آئی، آئی بی، آئی جی اسلام آباد وزارت داخلہ اور چیف کمشنر سے رپورٹ طلب کی آیا پی ٹی آئی قیادت نے یقین دہانی کی خلاف ورزی کی یا نہیں، متعلقہ اداروں نے رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرائیں، مجھے ان رپورٹس کی کاپی نہیں مل سکی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹس کی کاپی آپ کو فراہم کردی جائے گی، آپ کو کاپی ملنے کے بعد دوبارہ سماعت کریں گے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری عدالت سے عبوری حکم کی بھی استدعا ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا عبوری حکم جاری کریں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کو جہاد قرار دے رہے ہیں، وہ تقاریر سے لوگوں کو اکسا رہے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے، احتجاج کرنا بنیادی حق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنے کا پلان ہے، آپ قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں، شہر کے علاقوں کے تحفظ کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں، ابھی تک تو فی الحال تقاریر ہیں۔ آپ شہری علاقوں میں جہاں خطرات ہیں وہاں اقدامات کریں، رپورٹس میں بڑے ٹھوس جوابات دیے گئے ہیں، 31 شہری 25 مئی کو تصادم سے زخمی ہوئے، عمران خان نے اگلی صبح لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ جب لوگ ہوں تو آپ کی استدعا ہونی چاہیے کہ ہجوم کو روکیں، ابھی تو کوئی ہجوم نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹس کے مطابق 300 کے قریب افراد ریڈ زون کی جانب داخل ہوئے تھے، بظاہر لگتا ہے کہ وہ مقامی لوگ تھے، اگر احتجاج کرنے والے ہوتے تو زیادہ ہوتے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنر ل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جب صورتحال سامنے آئی تو ہم نے چھٹی والے دن عدالت لگائی۔ آپ کو اس صورتحال میں مضبوط دلائل دینے ہوں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ صورتحال ایسی ہے جس میں سب کو سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، جمہوریت معیاری قیادت پیدا کرتی ہے، ہم نے ہمیشہ قانون کی بات کی ہے، ہم سیاسی کردار نہیں ہیں اور نہ ہی سیاسی اقدامات لے سکتے ہیں۔ جب بھی ہماری مداخلت درکار ہوئی تو چھٹی کے دن بھی پہنچیں گے، عدالت کے سامنے ٹھوس مواد لے کر آئیں، ہمارا کام توازن رکھنا ہے، احتجاج کا حق بھی مشروط ہے۔ کسی سیاسی رہنما نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہیں، آئین اور قانون کے مطابق اقدامات اٹھانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی آکر کہہ دے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کا کوئی ارادہ نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں ہم دوسری بار ان سے یقین دہانی لیں، انتظامیہ اپنے آپ کو صورتحال کے لیے مکمل تیار کرے، جب کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو مداخلت کریں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے رپورٹس کا جائزہ لے لیں، آپ قبل از وقت ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئے، جب کچھ ہو تو آپ عدالت کے پاس آسکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام کا سیلاب آسکتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں ہے عوام کا سیلاب؟ گزشتہ مرتبہ 200، 300 لوگ کلوز ایریا میں داخل ہوئے تھے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو عمران خان کے سابقہ احتجاج سے متعلق عدالتی حکم پر جمع شدہ ایجنسیوں کی رپورٹس فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے عمران خان کے خلاف عبوری حکم جاری کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں