24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے اب تک بھارت کو روس سے 3کروڑ 40 لاکھ بیرل رعایتی تیل موصول ہوا ہے جو کہ 2021 کی اسی مدت کے مقابلے میں روس سے دیگر مصنوعات سمیت کل درآمدات کی قدر میں تین گنا اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ریفی نیٹو ایکون کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ روس سے بھارت کے سمندری تیل کی درآمدات میں سی پی سی بلینڈ آئل شامل نہیں ہے جسے روس کی بحیرہ اسود کی بندرگاہ کے ذریعے بھی برآمد کیا جاتا ہے لیکن اسے زیادہ تر مغربی ممالک کی قازقستان کی ذیلی کمپنیاں ٹرانزٹ والیوم کے طور پر فراہم کرتی ہیں۔
دنیا کی تیسری بڑی معیشت اور دنیا میں تیل برآمد کرنے والے تیسرے بڑے ملک بھارت کی فروری کے مہینے سے روس سے تیل کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تاکہ وہ اپنے درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے انتہائی رعایتی نرخ پر روسی تیل حاصل کر سکے۔
ریفینیٹیو ایکون تیل کے بہاؤ کے مطابق ملک کو اس ماہ 2کروڑ 40لاکھ بیرل سے زیادہ روسی خام تیل موصول ہوا جو اپریل میں 72لاکھ بیرل اور مارچ میں تقریباً 30لاکھ تھا اور جون میں بھارت مزید تقریباً 2کروڑ 80لاکھ بیرل تیل حاصل کرنے کی تیاری کررہا ہے۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق توانائی کی بڑھتی ہوئی درآمدات نے 24 فروری سے 26 مئی کے درمیان روس سے بھارت کی کل سامان کی درآمدات کو 6.4 ارب ڈالر تک پہنچانے میں مدد کی جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 1.99 ارب ڈالر تھی۔
البتہ روس کو بھارت کی برآمدات اس مدت کے دوران تقریباً 50 فیصد گر کر 37کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہ گئیں کیونکہ روسی حکومت نے ابھی تک ادائیگی کا باقاعدہ طریقہ کار قائم نہیں کیا ہے۔
روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد مغربی طاقتوں نے روس پر پابندیاں عائد کردیں اور بھارت روسی تیل کی خریداری پر مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔
تاہم بھارت نے تنقید کو دور کرتے ہوئے کہا کہ ان درآمدات ملک کی مجموعی ضروریات کا صرف ایک حصہ بنتی ہیں اور کہا ہے کہ وہ ’سستا‘ روسی تیل خریدتا رہے گا کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں عوام کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔
روسی اور بھارتی توانائی کمپنیاں سپلائی کے معاہدوں اور روسی تیل اور گیس کے منصوبوں میں حصص کے ممکنہ حصول پر بھی بات کرتی رہی ہیں۔