یہ سجھتے ہوئے کہ ملک اب عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے چیف الیکشن کمشنر کو 2018 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق رپورٹ پیش کردی۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کی جانب تیار کردہ رپورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) پر زور دیا گیا ہے کہ پورے عام انتخابات کی واضح چوری میں ملوث افراد کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی جائے۔
دھاندلی سے متعلق رپورٹ تاج حیدر، فرحت اللہ بابر اور نیئر حسین بخاری پر مشتمل پی پی پی کے تین رکنی وفد نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے حوالے کی، یپلزپارٹی نے یہ رپورٹ تقریباً ڈھائی سال قبل تیار کی تھی، فرحت اللہ بابر اور نیئر حسین بخاری پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں جو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں دو مختلف ناموں سے رجسٹرڈ ہیں۔
تیار کی گئی رپورٹ کے ساتھ منسلک ایک خط میں چیف الیکشن کمشنر کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ کیے گئے جرائم پر سزا کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہے اور الیکشنز ایکٹ 2017 کی خلاف ورزیوں کے خلاف پہلے ہی کیے گئے تعزیری اقدامات کے پس منظر میں ہم عام انتخابات 2018 کی چوری کے خلاف مزید محکمہ جاتی کارروائیوں کے منتظر ہیں، رپورٹ کے ساتھ منسلک خط میں انتظامیہ اور سیکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے مبینہ طور پر الیکشن سے قبل، پولنگ کے دن اور پولنگ کے بعد کی گئی دھاندلی کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بد قسمتی سے ای سی پی کی جانب سے تعینات پولنگ عملہ دھاندلی سے متعلق جرائم کو روکنے میں بری طرح ناکام رہا یا یہ بھی ممکن ہے کہ تعینات کردہ عملے میں سے کچھ دھاندلی سے متعلق جرائم میں شراکت دار بن گئے ہوں۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق پی پی پی سینٹرل الیکشن سیل کے جمع کردہ ڈیٹا کے علاوہ رپورٹ میں 2018 کے انتخابات کے بارے میں فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) سمیت قومی اور عالمی مبصرین کی مختلف رپورٹس سے متعلقہ اقتباسات بھی شامل ہیں۔
اگرچہ پارٹی نے کچھ غیر واضح وجوہات کے باعث رپورٹ کو عام نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم پی پی پی کے مرکزی میڈیا دفتر نے پی پی پی کے وفد کی سی ای سی سے ملاقات سے متعلق تقریباً 100 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے کچھ نکات فراہم کیے ہیں۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مجموعی 78 ہزار 4 سو 71 فارم-45 میں سے صرف 128 فارمز 45 پر پولنگ ایجنٹوں نے دستخط کیے تھے جنہوں نے ان امیدواروں کے نام درج کیے جن کی وہ نمائندگی کر رہے تھے۔ فارم 45 جس پر ووٹس کی گنتی کی جاتی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ای سی پی کی ویب سائٹ پر تقریباً 5 ہزار دستخط شدہ فارم موجود تھے، لیکن 128 فارموں کے علاوہ کسی میں بھی امیدواروں کے ناموں اور ان کی سیاسی وابستگی کا ذکر نہیں کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے دستخطوں کی صداقت پر شکوک و شبہات پیدا کیے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس حقیقت کے لاکھوں گواہان موجود ہیں کہ تمام پولنگ ایجنٹس کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کی تیاری کے وقت پولنگ سٹیشنوں سے زبردستی باہر نکال دیا گیا تھا، اس کے علاوہ عملے کی جانب سے دیگر جرائم بھی کیے گئے جبکہ بڑی تعداد میں حلقے ایسے تھے خاص طور پر وہ حلقے جو پی پی پی کے مضبوط گڑھ ہیں وہاں نتائج آنے میں کئے دن لگے۔
پی پی پی کے وفد کا چیف الیکشن کمشنر سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کرنے والوں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی مستقبل میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے بہت اہم ہے۔
پی پی پی رہنما فرحت اللہ نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں ای سی پی کی جانب سے کیے گئے ڈسکہ ضمنی انتخابات، بلدیاتی انتخابات اور ڈیرہ اسماعیل خان کے میئر کے انتخاب کے معاملے میں کیے گئے اقدامات سے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ مبینہ دھاندلی سے متعلق رپورٹ سی ای سی کو فراہم کریں۔
رپورٹ کو خفیہ رکھنے سے متعلق سوال کے جواب میں فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اگر ای سی پی مناسب سمجھتا ہے، تو وہ رپورٹ کو پبلک کر سکتا ہے،اس وقت ہم اسے ضروری نہیں سمجھتے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی نے رپورٹ کو عام کرنے کے لیے اس کی متعدد کاپیاں چھاپی ہیں، لیکن مشاورت کے بعد اسے جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا،انہوں نے کہا کہ پارٹی اسے پبلک کرنے کا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ای سی پی کے جواب کا انتظار کرے گی۔