پاکستان کے اندر بھارتی میزائل کا گرنا ‘حادثے کے سوا’ کچھ نہیں، امریکا

امریکا نے کہا ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ بھارت کا گزشتہ ہفتے پاکستان میں میزائل کا گرنا حادثے کے سوا اور کچھ تھا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے میزائل گرنے کے واقعے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صحافی کو مشورہ دیا کہ وہ اس واقع سے متعلق مزید معلومات کے لیے بھارتی وزارت دفاع سے رابطہ کریں۔

نیڈ پرائس کا پریس بریفنگ میں کہنا تھا کہ کہ ہمارے پاس کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے، جیسا کہ آپ نے ہمارے بھارتی شراکت داروں سے بھی سنا کہ یہ واقعہ ایک حادثے کے سوا کچھ نہیں تھا، اس واقع سے متعلق مزید معلومات کے لیے میں آپ کو تجویز کروں گا کہ بھارتی وزارت دفاع سے رابطہ کریں۔

نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ بھارتی وزارت دفاع نے 9 مارچ کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ کیا ہوا تھا اور ہمارے پاس بھی اس سے زیادہ اس معاملے پر کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی فوج کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے ایک روز بعد اور میزائل گرنے کے دو روز بعد بھارت نے 11 مارچ کو ایک بیان جاری کیا تھا۔

گزشتہ سال جون میں بھارت میں یورینیم کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ایک ملکی گینگ کا حصہ ہونے کے شبہ میں سات افراد کی گرفتاری کا حوالہ دیتے ہوئے، صحافی نے پھر نیڈ پرائس سے پوچھا کہ کیا اس واقعے کے بعد امریکا نے کبھی بھارت کے ساتھ تشویش کا اظہار کیا یا سفارتی سطح پر اس معاملے پر بات چیت کی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں اس خاص واقعے سے واقف نہیں ہوں، تاہم، میں یہ کہوں گا کہ دنیا بھر میں جوہری تحفظ، خاص طور پر جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک میں اس معاملے سے متعلق ہمیشہ بات چیت جاری رہتی ہے۔

‘بھارت سے ایک ‘شے’ نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی’
خیال رہے کہ 10 مارچ کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ایئر فورس کے افسر کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 9 مارچ کو 6 بج کر 33 منٹ پر بھارتی حدود سے ایک ‘شے’ نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ بھارتی مشکوک ’شے‘ نے پنجاب کے شہر ’میاں چنوں‘ کے قریب پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی اور بھارت بتائے کہ وہاں کیا ہوا اور کس مقصد کے لیے خلاف ورزی کی گئی۔

پریس کانفرنس کے دوران ایئر فورس کے افسر نے بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پاک فضائیہ نے اس مشکوک ’شے‘ کی مکمل نگرانی کی اور اسے گرایا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے بھارتی حدود کی جانب سے پاکستان میں مداخلت کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کے کیا مقاصد تھے، یہ تو بھارت ہی بتا سکتا ہے۔

انہوں نے تصدیق کی کہ بھارتی خلاف ورزی پر کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا اور ایئر فورس نے پورے معاملے کی نگرانی کی۔

بعد ازاں پاکستان نے بھارت کی جانب سے ’سپر سونک فلائنگ آبجیکٹ‘ کے ذریعے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق سفارت کار کو بتایا گیا تھا کہ فلائنگ آبجیکٹ کے ناقص تجربے سے ناصرف شہری املاک کو نقصان پہنچا بلکہ زمین پر انسانی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہوا۔

‘غلطی کا اعتراف، افسوس کا اظہار’
بعدازاں بھارت نے پاکستان کی حدود میں میزائل گرنے کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف اور واقعے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

بھارت کی وزارت دفاع سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ 9 مارچ کو روز مرہ کی مینٹیننس کے دوران تکنیکی خرابی کے سبب غلطی سے میزائل فائر ہو گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ میزائل پاکستان کی حدود میں گرا، گوکہ یہ واقعہ افسوس ناک ہے لیکن ہمیں اس بات پر اطمینان ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

مذکورہ واقعے پر قومی سلامتی کے مشیر معیدیوسف نے پاکستان میں 9 مارچ کو میزائل گرنے کی بھارتی وضاحت کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک غیرذمہ دار ملک کیسے ایٹمی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے، ہمیں پر امن رہنے دیا جائے، بھارت سے ایک سپر سانک میزائل 250 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پاکستان میں گرا، یہ کیسا ملک ہے کہ جس کا میزائل چل گیا اور وہ تین دن بعد وضاحت کر رہا ہے۔

پاکستان نے بھارت کی جانب سے پاکستان کی حدود میں گرنے والے میزائل کی تصدیق کرنے کے ایک روز بعد نئی دہلی سے سوال کیا تھا کہ ‘اتفاقی’ طور پر فائر ہونے والے میزائل کے بارے میں فوری آگاہ کیوں نہیں کیا گیا۔ دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت کی معمولی وضاحت سے اس معاملے کی تشفی نہیں ہوسکتی ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘واقعے کی سنگینی سے متعدد بنیادی سوالات اٹھے ہیں جو جوہری ماحول میں میزائل کا حادثاتی یا غیرقانونی طریقے سے فائر ہونے سے بچنے کے لیے سیکیورٹی پروٹوکولز اور ٹیکنیکل پروٹوکولز کے حوالے سے ہیں’۔

ساتھ ہی دفتر خارجہ نے بھارت کے سامنے مختلف سوالات رکھتے ہوئے ان کے تسلی بخش جوابات دینے کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ پورے واقعے سے بھارت کے اسٹریٹجک ہتھیاروں کو ہینڈل کرنے کے بارے کئی مسائل اور تکینکی خامیوں کا اشارہ ملتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں