سیکڑوں یہودیوں نے متنازع یہودی قوم پرست مارچ سے قبل قدیم شہر کے قلب سے گزر کر مقدس احاطے کا دورہ کیا، جہاں اسرائیل کی پولیس کو مقبوضہ بیت المقدس کی مسجد الاقصیٰ میں موجود فلسطینی شہریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق اسرائیل قدیم شہر پر 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے دوران قبضے پر سالانہ جلوس و جشن منایا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں شرکا نے پتھر کی تنگ گلیوں میں نعرے لگائے۔
فلسطینی جتھے نے خبراد کیا تھا کہ مسلمانوں کے شہر سے پرچم لہرانے کی پریڈ ان کے اسرائیل کے ساتھ دہائیوں پرانے تنازع کی یاد تازہ کر سکتی ہے، شہر میں کئی ہفتوں سے تناؤ کی فضا قائم ہے۔
جلوس شروع ہونے سے کئی گھنٹے قبل پولیس نے مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں فلسطینوں کو محصور کردیا تھا کیونکہ یہودی زائرین احاطے میں روزانہ آتے ہیں، جس کی مسلمان اور یہودی سب عزت کرتے ہیں۔
قطر کے نشریاتی ادارے ‘الجزیرہ’ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی افواج نے نماز پڑھنے کے القبلی ہال کی چھت پر اتوار کی صبح قبضہ کر کے عبادت کرنے والوں کو گھیر لیا تاکہ آبادکاروں کو بغیر کسی مزاحمت کے راستہ مہیا کیا جاسکے۔
الجزیرہ کے صحافی نجوان سمری نے کہا کہ اسرائیلوں نے فلسطینی صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو مسجد الاقصیٰ جانے سے روک دیا اور گرفتار کرنے کی دھمکی دی۔
راہداری میں موجود فلسطینی مظاہرین پر ربر کی گولیاں بھی ماری گئیں تاکہ ان کو منتشر کیا جائے، 10 لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
فلسطین کی ہلال احمر سوسائٹی نے کہا کہ آبادکاروں نے ایمبولینس پر بھی قدم شہر میں اس وقت حملہ کیا جب وہ الود کے ہمسایے میں زخمیوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ فلسطینیوں نے پولیس کی طرف آتش بازی کی اور پتھر پھینکے جس کے جواب میں ان پر دستی بم پھینکے گئے۔
یہودی زائرین میں ایک درجن کے قریب نوجوان مذہبی لباس میں ملبوس تھے، وہ مسکرائے اور گانا گایا اور مظاہرین کی طرف رخ کرکے تالیاں بجائیں، دیگر یہودی اسرائیلی جھنڈا تھامے نظر آئے۔
غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والے اسلامی گروپ حماس نے پرُزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آئن لائن موجود فوٹیجز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودیوں نے طویل المدت پابندی کی خلاف وزری کرتے ہوئے سائٹ پر عبادت کی۔
حماس کے سینئر حکام باسم نعیم نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی حکومت پر تمام غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کے سبب نتائج کی تمام تر ذمہ داری عائد ہوگی۔
حالیہ سالوں میں حماس نے خود کو مقبوضہ بیت المقدس کے مسلمانوں کے حمایتی کے طور پر پیش کیا ہے۔
گزشہ سال فلسطینیوں کو ان کے شہر سے بے دخل کرنے کے چند ہفتوں بعد حماس نے اسرائیلیوں کے قوم پرست مارچ پر راکٹ داغے، جس کے بعد 11 روزہ جنگ شروع ہوئی، جس سے غزہ میں کم از کم 250 فلسطینی اور 13 اسرائیلی مارے گئے۔
کوئی تبدیلی نہیں
اتحادی جماعتوں کی جانب سے مارچ پر دوبارہ سوچنے کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ان کی تجاویز کو مسترد کردیا تھا۔
ان کے دفتر نے جمعہ کو جاری بیان میں بتایا کہ جھنڈے کی پریڈ مقرر کیے گیے راستے کے مطابق ہی منعقد ہوگی، جبکہ صورتحال کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا رہے گا۔
اسرائیل کے لوگ پورے پروشلم کو ابدی اور ناقابل تقسیم دارالحکومت سمجھتے ہیں جبکہ فلسطینی مشرقی حصے کو اپنے دارالحکومت کے مستقبل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
فلسطینیوں کے لیے اتوار کا مارچ شہر کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے، جس کی توہین اور خلاف ورزی کی جارہی ہے جو یہودیوں کی ترقی اور آباد کاری کی وجہ سے تیزی سے متاثر ہو رہا ہے۔
فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں (اپریل) رمضان کے مہینے میں متعدد بار جھڑپیں ہوئی تھیں، مسلمانوں نے یہودی زائرین کی مسجد کے اطراف بڑھتی ہوئی تعداد پر غصے کا اظہار کیا تھا۔
دو ہفتے قبل الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ کی آخری رسومات ادا کی گئیں، وہ اسرائیلی فوج کی مغربی کنارے میں کارروائی کے دوران ماری گئی تھیں۔
مسجد الاقصیٰ مسلمانوں کی تیسری مقدس ترین مسجد ہے، جسے یہودی ٹیمپل ماؤنٹ کے سبب احترام کرتے ہیں۔
اتوار کے جلوس کا اختتام مغربی دیوار پر ہونا ہے، جہاں پر یہودیوں کی عبادت گاہ ہے جو مسجد اقصیٰ کے نیچے قائم ہے۔