سعودی عرب کے ولی عہد اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے دو علاقائی طاقتوں کے درمیان تنازع ختم کر کے تعلقات کو دوبارہ بحال کرنے کا عزم ظاہر کردیا۔
نجی اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں مملکت کے استنبول قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دراڑ پیدا ہوگئ تھی جس کے بعد ترک صدر طیب اردوان کا یہ پہلا دورہ ہے۔
دورے کے دوران ترک صدر نے تعلقات کو ’ترقی ‘ دینے کے لیےمملکت کے ولی عہد سے ملاقات کی۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ایس پی اے‘ نے ترک صدر کی شہزادہ محمد بن سلمان کو گلے لگاتے ہوئے تصاویر شائع کیں، جس کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس حکام نے اندازہ لگایا ہے کہ جمال خاشقجی کے خلاف سازش کی منظوری دی گئی ہے، تاہم ریاض تردید کرتا ہے۔
ایس پی اے نے رپورٹ کیا کہ دونوں ممالک ’سعودی ترک تعلقات پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے تمام شعبوں میں ترقی دینے کے طریقوں کا جائزہ لے رہے ہیں‘۔
ترکی کے سرکاری میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی تصاویر میں صدر طیب اردوان کو ولی عہد کے والد شاہ سلمان کے ساتھ ایک ملاقات کرتے دیکھایا گیا۔
ملاقات کے بعد طیب اردگان عمرے کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کے مقدس شہر مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، جہاں راستے میں ترکی اور سعودی عرب کے جھنڈےلگائے گئے تھے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ترکی اپنی کرنسی کی قدر میں کمی اور بڑھتی ہوئی افراط زر کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا کرتے ہوئے توانائی سے مالا مال خلیجی ممالک سے مالی مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
استنبول سے سعودی عرب کے دوسرے شہر جدہ کے لیے پرواز سے قبل اردوان کا کہنا تھا کہ وہ دو طرفہ تعلقات میں ’ایک نئے دور کا آغاز‘ کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ دفاع اور مالیات سمیت تمام شعبوں میں تعاون بڑھانا ہمارے باہمی مفاد کےلیے اہم ہے‘۔
خیال رہے، سعودی ایجنٹوں نے اکتوبر 2018 میں استبول میں واقعے سعودی مملکت کے قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کو قتل کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا، اس کی باقیات کبھی نہیں ملیں، اس بھیانک عمل سے سعودی عرب اور خاص طور پر شہزادہ محمد بن سلمان کو تنہا کرنے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا جبکہ اس وقعے کے بعد انقرہ کے ساتھ ریاض کی علاقائی دشمنی میں اضافہ ہوا۔