ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ وفاقی حکومت جلد 21 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کو گرفتار سے متعلق کمیشن کا اعلان کرے گی۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں درج اراضی کیس میں شیریں مزاری کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہدایت دی ہے کہ حکومت ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دے کو معاملے کی تحقیقات کرے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ شیریں مزاری پارلیمنٹ کی رکن ہیں انہیں قومی اسمبلی کے اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شیری مزاری کو اب تک اسپیکر یا الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے متعلقہ حکام کو کہا کہ معلوم کریں کہ شیریں مزاریں کو مقررہ کردہ طریقہ پر عمل درآمد کیے بغیر کس طرح گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‘یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، عدالت کے مسلسل احکامات کے باوجود ریاست کے عہدیداران کی جانب سے اختیارات کا ناجائز استعمال لاقانونیت اور آزادی کے حقوق سے غیر قانونی محرومی کو فروغ دیتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘قانون نافذ کرنے والے ادارے ان وجود کی بنا پر کہ وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں، مجرموں کا احتساب کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں‘۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ ’سرکاری عہدیداروں کی جانب سے اختیارات کے مسلسل غلط استعمال کرتے ہوئے ‘مرتکب مجرموں‘ کے احتساب کے معاملے پر تحقیقات کی جائے۔
خیال رہے پی ٹی آئی کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو 21 مئی کو اسلام آباد سے ‘گرفتار’ کیا گیا تھا۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے تصدیق کی تھی کہ شیریں مزاری کو حراست میں لیا گیا ہے۔
پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے 11 اپریل کو شیریں مزاری کے خلاف درج کی گئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں کہا گیا تھا کہ شیریں مزاری کو ان کے والد عاشق محمد خان سے وراثت میں زمین ملی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ شیریں مزاری نے روجھان میں مذکورہ زمین سے پروگریسو فارم لمیٹڈ کو ’جعل سازی‘ کرتے ہوئے 800 کنال منتقل کیا۔
دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر روجھان کے مطابق محکمہ ریونیو کے ریکارڈ میں ان کمپنیوں کا سراغ نہیں ملا اور لہٰذا ’یہ کمپنیاں بوگس تھیں‘۔
مقدمے میں مزید مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ شیریں مزاری پر الزام ہے کہ انہوں نے زمین کی ’جعلی‘ منتقلی کے لیے مقامی لینڈ اتھارٹیز سے مل کر سازش کی۔