جنگی جرائم پر نظر رکھنے والے ایک ادارے نے بتایا ہے کہ شام میں امریکا کی حمایت یافتہ کرد فورسز اور شدت پسند داعش (آئی ایس) کے جنگجوؤں کے درمیان چوتھے روز بھی لڑائی جاری رہی جنہوں نے ایک جیل پر حملہ کیا، جس میں عام شہریوں سمیت 136 افراد ہلاک ہوگئے۔
عالمی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جمعرات کو ہساکے شہر میں 100 سے زیادہ باغیوں نے کردوں کے زیر انتظام غویران جیل پر ساتھیوں کو رہا کرنے کے لیے حملہ کیا جو کہ تقریباً تین سال قبل شام میں داعش کی خود ساختہ خلافت کی شکست کے بعد سے اب تک ان کی سب سے بڑی کارروائی سمجھی جارہی ہے۔
برطانیہ میں قائم شامی مبصر گروپ کے مطابق اس کارروائی کے بعد سے شدید لڑائیوں میں عسکریت پسندوں کو قیدیوں کو آزاد کرتے ہوئے اور جیل میں ذخیرہ کیے گئے ہتھیاروں پر قبضہ کرتے دیکھا گیا ہے۔
ماہرین اسے داعش کو دوبارہ منظم کرنے کی جرأت مندانہ کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق حملے کے آغاز سے لے کر اب تک جیل کے اندر اور باہر، داعش کے کم از کم 84 ارکان اور 45 کرد جنگجو سمیت اندرونی سیکیورٹی فورسز، جیل کے محافظ اور انسداد دہشت گردی کے اہلکار ہلاک کیے جاچکے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شمال مشرقی شہر میں ہونے والی لڑائی میں 7 شہری بھی مارے گئے ہیں۔
لڑائی اتوار کے روز بھی جاری رہی، اس دوران اتحادیوں کے حملوں کی مدد سے کردوں کی زیر قیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) جیل کے اندر اور باہر جہادیوں کے اہداف کے قریب پہنچ گئی۔
ایس ڈی ایف نے ایک بیان میں کہا کہ اس کی فورسز نے جیل کے آس پاس کے علاقے کو سیل کردیا ہے، جیل کے دروازوں کے اندر موجود داعش کے جنگجو اب فرار نہیں ہو سکتے۔
آبزرویٹری کے مطابق ایس ڈی ایف نے کچھ سیل بلاکس کے علاوہ جہاں جہادیوں نے ابھی تک ہتھیار نہیں ڈالے ہیں، زیادہ تر علاقہ محفوظ بنا لیا ہے۔
غویران شہر کے قریب موجود ایک نامہ نگار نے جیل کے ارد گرد کے علاقوں میں شدید گولہ باری کی آواز کی اطلاع دی، جہاں مبینہ طور پر داعش کے کم از کم 3 ہزار 500 ارکان رہائش پذیر ہیں۔
نامہ نگار نے بتایا کہ ایس ڈی ایف نے جیل کے آس پاس کے علاقوں میں بھاری تعداد میں فورسز تعینات کیں جہاں انہوں نے کومبنگ آپریشنز کیے اور جہادیوں کو ہتھیار ڈالنے کا کہنے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کیا۔
پیدل بھاگتے ہوئے تیس سال کے ایک شہری نے کہا کہ داعش کے جنگجو گھروں میں گھس کر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔
اس نے کمبل میں لپٹے ایک بچےکو اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک معجزہ ہی تھا کہ ہم وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے، حالات اب بھی بہت خراب ہیں، چار دن گزرنے کے بعد بھی پرتشدد جھڑپیں جاری ہیں۔
داعش نے مارچ 2019 میں اپنی وسیع ریاست کے خاتمے کے بعد سے شام میں کردوں اور حکومتی اہداف پر باقاعدہ حملے شروع کردیے تھے۔