مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے ہمیں ووٹ ڈالنے جانا ہے تو کیا ہمیں تحفظ نہیں چاہیے، اگر ہم بھی اپنے لوگ لےجائیں تو وہاں کیا بنے گا، یہ لوگوں کے بچوں کو داؤ پر لگانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بات وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے اس بیان کے تناظر میں کہی کہ تحریک عدم اعتماد کے روز ڈی چوک پر جلسہ کیا جائے گا جس میں 10 لاکھ افراد شریک ہوں گے اور اراکین قومی اسمبلی کو عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے اسی جلسے سے گزر کر جانا اور آنا پڑے گا۔
سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ہم دیکھیں گے ہمیں کون روکے گا وہاں پر، کوئی ہمیں روک نہیں سکتا، ہم نہیں چاہتے کہ وہاں ہم عوامی طاقت کے ساتھ یا اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر جائیں لیکن عمران خان ہمیں مجبور کررہا ہے کہ ہم وہاں اپنےساتھیوں سمیت جائیں۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ میں 10 لاکھ افراد اکٹھے کروں گا، 10 لاکھ کی انہوں نے کبھی شکل نہیں دیکھی ہوگی، کیا لوگ اکٹھے کرنے عمران خان صاحب صرف آپ کو آتے ہیں، ہمیں نہیں آتے، ہم بغیر لوگوں (کی حمایت کے) 8، 8 مرتبہ اسمبلیوں میں آجاتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ ہم مدبر لوگ ہیں، ہم تجربہ کار لوگ ہیں، یہ کام نہیں چاہتے، اس لیے پاکستان کے اداروں بالخصوص عدلیہ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں واضح ہے کہ عدم اعتماد کس طرح ہوگا، یہ آئین ہمیں تحریک پیش کرنے کا حق دیتا ہے اور ایک آدمی جو حکمران بھی ہو وہ کھڑا ہو کر کہے کہ میں کسی کو پارلیمنٹ میں جانے نہیں دوں گا، لوگ اکٹھے کروں گا، جتھا بندی کروں گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کا نوٹس لیں اور اس طرح کی سرگرمیوں پر پابندی لگائیں۔
سعد رفیق نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں انہوں نے تماشا لگایا جمیت علمائے اسلام (ف) کے دو ایم این ایز کو لے گئے، پھر ہضم نہیں ہورہے تھے تو منتوں پر آگئے کہ اپنے بندے واپس لے لو اور جھوٹ بولتے ہیں مولانا فضل الرحمٰن نے جب باہر نکل کر کال دی تو پوری سرکار کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ترلے کر کے صبح 5 بجے بندے واپس بھیجے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اداروں خاص کر عدلیہ کو اس نوٹس لینا چاہیے اور کوشش کی جانی چاہیے کہ شاہراہِ دستور میدانِ جنگ نہ بنے، عمران خان کو نظر آچکا ہے کہ ہو جارہے ہیں، وہ ملک میں غیر جمہوری اقدامات کرانا چاہتے ہیں اسی لیے وہ وہاں لوگوں کو اکٹھا کررہے ہیں، آپ اراکین اکٹھے کریں۔
ارکان کو جلسے سے گزر پارلیمنٹ جانے کی دھمکی دینا قابل مذمت ہے، شیری رحمٰن
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی صدر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے عدم اعتماد کے دن ڈی چوک پر جلسہ کرنے اور ارکان کو جلسے سے گزر کر پارلیمنٹ جانے کی دھمکیاں قابل مذمت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنی عددی پوزیشن پر یقین ہے تو ارکان سے ووٹ کا حق کیوں چھین رہی ہے؟ ارکان کو دھمکیاں دینا اور ان کو ووٹ سے روکنا آئین اور ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔
نائب صدر پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ مصنوعی اور عارضی اکثریت پر بنی حکومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لگتا ہے ان کے مانگے تانگے کے ووٹ بھی کم پڑ گئے ہیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ ان کی دھمکیاں اور بیانات عدم اعتماد کی کامیابی کا اظہار ہے، دھاندلی اور آر ٹی ایس کی خرابی کے نتیجے میں بننے والی حادثاتی حکومت کا انجام یہی ہونا تھا۔
اپوزیشن کی کارکنان کو قیادت کی کال پر ڈی چوک کیلئے تیار رہنے کی ہدایت
ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ نے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کردی۔
رانا ثنا اللہ نے پارٹی کے صوبائی ،ڈویژنل اور ضلعی عہدیداروں کو تیاریوں کی ہدایت کرتے ہوئے عہدیداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈی چوک میں عوامی قوت دکھائیں گے، جیسے ہی پارٹی کال دے، ڈی چوک کی جانب چل پڑیں۔
اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنان کو بھی مولانا فضل الرحمان کی کال پر تیار رہنے کی ہدایت کرتے ہوئےراولپنڈی اور اسلام آباد کی تمام تنظیموں کو الرٹ کردیا گیا۔
ترجمان جے یو آئی ف راولپنڈی نے ایک بیان میں کہا کہ راولپنڈی کی تمام تحصیلوں کے کارکنان کال کا انتظار کریں، کسی بھی کال دی جاسکتی ہے تیاری رکھیں۔