بحریہ ٹاؤن میں نوجوان کے قتل میں ملوث 3 ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہوئے

رواں ہفتے بحریہ ٹاؤن کراچی میں ایک نوجوان کے مبینہ قتل میں ملوث تین مشتبہ ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہوئے، پولیس نے قتل کو معمولہ مسئلہ قرار دیا تھا۔

نجی چینل سے بات کرتے ہوئے ملیر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن عرب مہر نے کہا کہ قتل میں ملوث 3 ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں جس میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

کراچی بحریہ ٹاؤن میں کچھ روز قبل ایک تنازع پر ملزمان نے 19 سالہ جزلان فیصل کو گولی مار کر قتل کیا تھا جبکہ ان کے دوست شاہ میر علی کو زخمی کیا تھا، جس کا مقدمہ درج ہونے کے بعد جمعرات کو پولیس نے تفتیش شروع کردی ہے۔

مقتول نوجوان نے مشتبہ افراد کے رات گئے بحریہ ٹاؤن میں بائیک چلانے پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

گڈاپ سٹی پولیس نے مقتول کے چچا عارف صابر کی شکایت پر تین بھائیوں سمیت 4 افراد کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی تھی، نامزد ملزمان میں سے ایک کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ایف آئی آر میں مقتول کے چچا عارف صابر نے کہا کہ وہ ہارون بنگلوز میں اپنے گھر پر تھے جب انہیں شاہ میر کا فون آیا جس نے انہیں بدھ کی رات 2 بجے کے قریب آغا خان یونیورسٹی ہسپتال پہنچنے کو کہا تھا۔

انہوں نے ایف آئی آر میں کہا ہے کہ جب وہ ہسپتال پہنچے تو ان کا بھتیجا جزلان اور شاہ میر گولیوں کے زخموں کے ساتھ ایمرجنسی وارڈ میں داخل تھے، جزلان بےہوش اور وینٹی لیٹر پر تھا مگر شاہ میر بولنے کے قابل تھا۔

انہوں نے کہا کہ شاہ میر نے بتایا کہ وہ جزلان کے ہمراہ اپنے دوست زرغام کی کار میں ایک رشتہ دار ابراہیم سے ملنے کے بعد واپس آرہے تھے، وہ جناح ایونیو کی طرف سفر کر رہے تھے کہ انہوں نے ایک نوجوان کو انتہائی خطرناک انداز میں موٹرسائیکل پر سوار دیکھا جو ان کی گاڑی کو ٹکر مارنے سے تھوڑے سے فاصلے سے بچ گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ شاہ میر نے بتایا کہ جب انہوں نے اس نوجوان سے غصے میں پوچھا کہ وہ اس طرح خطرناک انداز میں موٹرسائیکل کیوں چلا رہا ہے جس پر اس نوجوان نے گالم گلوچ کی اور غصے میں بات کرنے لگا۔

موٹر سائیکل سوار نوجوان نے اپنے بھائیوں کو فون کیا اور اسی وقت گاڑی مالک نے جب دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل اور کار ان کا پیچھا کر رہی ہے تو وہ وہاں سے نکل گئے۔

انہوں نے ایف آئی آر میں مزید بتایا ہے کہ شاہ میر نے کہا کہ جب وہ بحریہ ٹاؤن کے ایفل ٹاور پر پہنچے تو کار میں سوار مشتبہ افراد نے دوسری گاڑی سے کراس فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں شاہ میر اور جزلان کو گولیاں لگیں اور ان کا دوست زرغام معمولی زخمی ہوا، جزلان کو سر میں گولی لگی تھی۔

انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے بعد بہت لوگ وہاں پہنچ گئے جو انہیں بحریہ ٹاؤن کے قریبی ہسپتال لے گئے اور بعد میں انہیں آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں جزلان دوران علاج جاں بحق ہوگیا۔

شاہ میر کے مطابق تین بھائی محمد احسان عرف احسان، محمد عرفان اور محمد حسنین اور انشال نے مبینہ طور پر ان پر حملہ کیا اور وہاں سے فرار ہوگئے۔

غیر لائسنس شدہ ہتھیار
ایس ایس پی عرب مہر نے ڈان کو بتایا کہ مشتبہ ملزمان نوجوان تھے جنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے پاس جو ہتھیار تھا وہ قتل میں استعمال ہوا تھا، انہوں نے کہا کہ تفتیش کار قتل میں استعمال ہونے والا ہتھیار برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے باثر خاندانوں کے بچے جن کے پاس طاقت اور پیسہ ہے وہ چھوٹے معاملات پر جھگڑا کرتے ہیں جن کی وجہ سے ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ملیر کنٹونمنٹ میں موٹرسائیکل کی ریسنگ پر نوجوانوں میں ایسے جھگڑے ہوئے ہیں۔

مقتول جزلان کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا اور ہزاروں ٹوئٹر صارفین نے جزلان کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں