اٹارنی جنرل کی وزیراعظم سے ملاقات، مزید چند دن کام جاری رکھنے کا فیصلہ

اسلام آباد: آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت انحراف کی شق کی تشریح کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل ہونے پر جلد ہی مستعفی ہونے کا ارادہ رکھنے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان مزید ایک یا دو دن اس عہدے پر رہ سکتے ہیں۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے جمعہ کو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور بعد میں ان سے کہا کہ وہ کچھ وقت رکیں ​​اور کچھ دیر اپنے دفتر میں رہیں۔

اٹارنی جنرل نے 4 اپریل کو جسٹس مقبول باقر کی ریٹائرمنٹ پر الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں اپنی تقریر میں کہا کہ زندگی ہمیشہ ہمارے منصوبوں کو روکتی ہے اور اپنے وقت کا انتخاب کرتی ہے۔

یہ تقریر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بغیر اجلاس ملتوی کرنے کے ایک دن بعد کی گئی۔

اس پیشرفت نے ان افواہوں کو جنم دیا تھا کہ اٹارنی جنرل پاکستان جلد استعفیٰ دے سکتے ہیں۔

لیکن خود اٹارنی جنرل نے فل کورٹ ریفرنس میں اپنے خطاب میں یہ کہہ کر معاملے کو حل کر دیا کہ انہوں نے صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کے فوراً بعد استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ سیاسی بساط پر حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے ان کی جانب سے فوری استعفیٰ کو ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کے چھلانگ لگانے سے تشبیہ دی جائے گی اور میں اس داغ کے ساتھ جی نہیں سکوں گا۔

اٹارنی جنرل نے اپنی تقریر میں مشاہدہ کیا کہ چاہے کوئی جہاز کے راستے اور سفر سے اتفاق کرے یا اختلاف کرے، کسی کو بھی جہاز سے چھلانگ لگا اسے طوفان کی بپھری ہوئی موجوں پر نہیں چھوڑنا چاہیے، خاص طور پر جب آپ نے اس جہاز کے سفر کا لطف اٹھایا ہو۔

خالد جاوید نے اپنی تقریر کے اختتامی حصے میں ٹائٹینک کے حوالے سے استعارے کے طور پر حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لہٰذا میں ٹائی ٹینک پر ہی رہوں گا اور آپ کی بادشاہت (جسٹس باقر) کو اس کے عرشے سے ہی الوداع کہوں گا‘۔

اٹارنی جنرل نے اس سال کے شروع میں نامہ نگاروں کے ایک گروپ کو بتایا تھا کہ انہوں نے فروری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے اس ہفتے اسمبلی کی تحلیل کے مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے بینچ کو بتایا تھا کہ حکومت کے لا آفیسر کی حیثیت سے ’یہ میرا آخری مقدمہ ہوگا‘ اور یہ کہ ’میں نہیں چاہوں گا کہ تاریخ مجھ پر فرد جرم عائد کرے۔

انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کے حکم اور اسمبلی تحلیل کے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کو مشورہ دیا تھا کہ عدالت کو جوڈیشل ایکٹیوزم میں ملوث ہونے کے بجائے عدالتی اسٹیٹ مین شپ کا استعمال کرنا چاہیے اور حکومت کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔

7 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے مشاہدہ کیا تھا کہ عدالت ناصرف اس کیس میں بلکہ زیر التوا صدارتی ریفرنس میں بھی اٹارنی جنرل کی مدد چاہتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں