وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں غیر ملکیوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے یہاں جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے، افغانستان اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے اثرات بھی کراچی کو بھگتنے پڑتے ہیں۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاشی کے حالات کے باعث پورے ملک میں سیکیورٹی کے حالات خراب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں دہشت گردی کے حوالے نشاندہی بھی زیادہ کی جاتی ہے، یہاں جرائم اس لیے زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ یہاں ہر ملک کے شہری آباد ہیں، افغانستان اور بلوچستان میں جو حالات ہوتے ہیں وہ بھی ہمیں بھگتے پڑتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ شہر جرائم کے حوالے سے چھٹے نمبر پر تھا تب بھی ہم نے امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کی کوشش کی اور اب کراچی جرائم کے حوالے سے 125 یا 130 نمبر پر آگیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حال ہی میں ہونے والے واقعات پر سخت کارروائی کی جائے گی، اور پولیس کو بھی مناسب ہدایات دی جائیں گی، اور اس میں اگر پولیس نے کوئی کوتاہی کی تو انہیں سزا بھی دی جائے گی۔
اسٹریٹ کرائم سے متعلق سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں، اطہر متین کے کیس میں بھی کچھ پیش رفت سامنے آئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ملوث کچھ افراد کو پکڑا بھی گیا ہےمیں اس کے حوالے سے تفصیلات پیش کروں گا، جرائم کی وارداتوں پر بے بس نہیں ہے، حکومت پولیس اور میں خود بھی ان مسائل سے بری الزمہ نہیں ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا جس پر عمل درآمد کے لیے ملک بھر کے لیے ایپکس کمیٹی بنائی گئی تھی، اس کے تحت صوبوں کو ایپکس کمیٹی بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ نے ایپکس کمیٹی کے 26 اجلاس کیے کسی اور صوبے نے نہیں کیے، بعدازاں حکومت نے ایپکس کمیٹی کے نظام کو تبدیل کردیا، 20 کی جگہ 14 نکات کردیے گئے اور صوبوں کو اس میں سے نکال دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ایپکس کمیٹی کے 20 نکات میں اسٹریٹ کرائم کہی نہیں تھا۔
کراچی میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے حوالے سے اسپیشل فورس بنانے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ پولیس کو تجویز پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کا اعلان بہت پہلے کردیا تھا،چیئرمین پیپلز پارٹی نے دو ماہ قبل لانگ مارچ کا کہہ دیا تھا، لانگ مارچ میں سندھ کے مسئلے بھی سامنے رکھے جائیں گے، لیکن اس میں ملک کے حالات بھی زیر غور لائے جائیں گے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ لانگ مارچ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کی جارہی ہے، اور عمران خان نیازی لوگوں کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہیں، یہ ہی پیغام ہم لے کر جا رہے ہیں کہ انہیں ہٹنا ہوگا۔
صوبائی ترقی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم عوام کے پاس اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جاتے ہیں ہمارے کارکردگی دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے انشاللہ آئندہ الیکشن میں ہم 2018 سے زیادہ ووٹ لیں گے۔
سندھ میں ہونے والے تین واقعات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ناظم جوکھیو کے کیس میں ہیومن رائٹ کمیشن کو شامل کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، اس معاملے میں مقدمہ اس ہی روز ہوا، جبکہ مقدمے میں نامزد رکن صوبائی اسمبلی گرفتار بھی ہیں، اور ہم نے اس کیس میں مدعی سے تعاون کیا اور ان کی مرضی سے انکوائری کمیٹی بنائیں۔
قمبر شہداد کوٹ میں ہونے والے واقعے پر انہوں نے کہا کہ ایک ایم پی اے کے والد کو مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا، لیکن ملزم کا انتقال ہوگیا، تیسرے واقعے میں ایسے فرد کو نامزد کیا گیا جو وہاں موجود ہی نہیں تھا، اس واقعے میں اے ایس آئی بھی شہید ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت انصاف پر انحصار کرتی ہے، ہمارے ساتھ جو وفاقی حکومت کر رہی ہے اسے کوئی نہیں دیکھ رہا، عدالتی احکامات کے باوجود بھی سندھ کو گیس نہیں دی جارہی ہے۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت صحافیوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیتی ہے، اور آپ معمصومیت سے پیچھے چل پڑتے ہیں، ادھر پیٹرول کی قیمت بڑھائی جاتی ہے ادھر کوئی مسئلہ پیدا کر کے میڈیا کی توجہ اس طرف مبذول کروادی جاتی ہے۔